آج سے صرف چند سال پہلے تک ہم جس طرح ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تھے وہ اب زمانہ قدیم دکھائی دیتا ہے کیونکہ موبائل، انٹرنیٹ اور کیبل نے ہماری زندگیوں میں ایک نیا انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ آئیے ہم ذرا ٹیلی کمیونیکیشن کے اس میدان کا شروع سے چائزہ لیتے ہیں۔
جب پہلی مرتبہ سائینسدانوں کو اس بات کا علم ہوا کہ ایک دھاتی تار میں سے برقی رو یا کرنٹ گزر سکتی ہے توانہیں فورا خیال آیا کہ بجلی کی اس خصوصیت کو تو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب کوئی سے دو مقامات کو بجلی کی تاروں کی مدد سے آپس میں ملا دیا جائے تو ان میں ایک ایسا برقی راستہ بن جاتا ہے جس سے برقی رو کو باآسانی ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی ایک مقام پر برقی کنکشن کیا جائے گا بجلی فورا روشنی کی رفتار سے لپک کر دوسری جگہہ پہنچ جائے گی۔ ایسے ہی جیسے لوڈ شیڈنگ کے بعد بجلی بحال ہوتے ہی فورا ہر گھر میں - بغیر راستے میں وقت ضائع کئے - پہنچ جاتی ہے۔ سوچیں اگر یہ راستے میں کہیں گپ شپ لگانے یا سستانے کے لیے رک جایا کرتی تو ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ۔ اسی طرح یہ اس بات کا بھی برا نہیں مناتی کہ اب تو راستے میں پہاڑ آ گیا ہے اس پر سے تو مجھ سے چڑھا ہی نہیں جائے گا۔ نئی گاڑی ملے گی تو چاؤں گی ورنہ ادھر ہی بیٹھی رہوں گی۔ نہ ہی اسے لمبے چوڑے راستے اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس ایک تار بچھایا اور بجلی نے چلنا شروع کر دیا۔
ہو سکتا ہے آپ کو لگے کہ اورپر کے پیرے میں اتنی بونگیاں کیوں ماری گئی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بجلی سے قبل یہ تمام مسائل پیغامات ترسیل کرنے میں حائل ہوتے تھے اور بعض اوقات تو پیغام رساں حضرات اپنی جانیں تک گنوا دیتے تھے۔ بجلی درفیات ہوئی تو امید کی ایک کرن بھی نظر آئی۔ بجلی کو پیغام پہنچانے کے لیے عملی طور پر کیسے استعمال کیا جائے؟ یہ پہلا سوال تھا جس کا جواب سائینسدانوں کو دینا تھا
جدید مواصلات کا جد امجد ٹیلی گراف تب تک ایجاد نہ ہو سکا جب تک یہ پتا نہ چل گیا کہ برقی رو اور مقناطیسیت درحقیقت ایک ہی شے کے دو پرتو ہیں۔ مجھے امید ہے یہ جملہ آپ کے اوسان خطا نہیں کرے گا۔ ایک کیل کے گرد تار لپیٹ کر- اس میں سے برقی سیل کے ذریعے برقی رو گزار کر- اسے مقناطیس بنانے کا تجربہ ہم میں سے اکثر لوگوں نے کیا ہوگا یا کم از کم تیسری چوتھی جماعت میں پڑھا تو ہو گا ہی۔ یہ تعلق پہلی بار ایک ڈچ (ہالینڈ) باشندے ہینز اورسٹڈ نے دریافت کیا تھا۔ وہ سن 1819 میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ قطب نما کو کسی تار کے قریب لائیں - جس میں سے برقی رو گزر رہی ہو- تو قطب نما کی سوئی میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ قطب نما میں سوئی کی شکل کا ایک چھوٹا سا مقناطیس ہوتا ہے جو شمالی سمت کی نشاندہی کرتا ہے کہ زمین بھی ایک بڑا سا مقناطیس ہے۔
فرانسیسی سائینسدان ایمپئیر نے اس دریافت کے متعلق مزید سوچ بچار کی اور اس عمل کی یہ وجہ بیان کی کہ کرنٹ والی تار مقناطیسی سوئی پراس لیے اپنا اثر ڈالتی ہے کہ کرنٹ گزرنے سے یہ بھی مقناطیس بن جاتی ہے۔ مزید تجربات سے یہ بات بالکل روشن ہو گئی اور سب نے اسے مان لیا۔ ایمپئیر تجربات کرتا رہا اور اس تجربے پر پہنچا کہ اگر چکروں کی تعداد بڑھا دی جائے تو مقنا طیسی میدان کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پہلے ہم نے جس کیل والے تجربے کا ذکر کیا تھا اس کو بغیر کیل سے بھی کریں تو کوائل ایک مقناطیس بنے گی تو ضرور لیکن یہ مقناطیسی میدان فضا میں پھیلا ہوا ہو گا۔ کیل مقناطیسی میدان کو چھوٹی سی جگہہ میں اکٹھا کر دیتی جس سے اس کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے، ایسے ہی جیسے محدب عدسہ سورج کی شعاؤں کو مرتکز کر کے ان کی طاقت اتنی بڑھا دیتا ہے کہ اس کی مدد سے ایک کاغذ بھی جلایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایمپئیر وہ پہلا شخص تھا جس نے برقی مقناطیس ایجاد کیا۔
اب بہت سے لوگوں نے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ ان برقی مقناطیسوں کو استعمال کرتے ہوئے پیغام رسانی کیسے کی جائے۔ انہیں لوگوں میں شامل دو آدمی وہیٹ سٹون اور کک (پریشان نہ ہوں، انگریزوں کے نام ایسے ہی اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں) بھی تھے۔ انہوں نے لندن کے دو قصبوں یوسٹن مینشن اور کمیثن ٹاؤن کے درمیان دنیا کی پہلی ٹیلی گراف لائین بچھائی۔ یہ 24 جولائی 1837 کی بات ہے ، یعنی ہماری جنگ آزادی سے 20 سال پہلے۔ انہوں نے وہی اصول استعمال کیا جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ ان لوگوں کے ٹیلیگراف میں 6 تاریں استعمال ہوتی تھیں یہ تاریں دونوں طرف ایک مشین سے جا کر جڑی ہوتی تھیں۔ اس مشین میں پانچ لوہے کی سوئیاں عمودی حالت میں نصب تھیں۔ ہر سوئی کی سمت مقناطیسی میدان کے ذریعے بائیں یا دائیں جانب کی جا سکتی تھی۔ ایک حر ف کو بھیجنے کے لیے دو بٹن دبائے جاتے تھے اور دور بیٹھا شخص ان بٹنوں سے متعلقہ سوئیوں کی سمت دیکھ کر ایک سکرین پر وہ حرف پڑھ لیتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس مشین پر صرف بیس حروف بھیجے اور پڑھے جا سکتے تھے
چھ حروف (جے سی کیو یو ایکس اور زیڈ J C Q U X Z) چھوڑ دئے گئے تھے. اس وجہ سے پیغام لکھنے میں کچھ مشکل تو ہوتی تھی تاہم کام چل جاتا تھا۔ ٹیلی گراف کا سب سے پہلا استعمال ریلوے میں وقت کا حساب رکھنے کے لیے کیا گیا۔ پھر اسے پیغامات بھیجنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا اور برطانوی محکمہ ڈاک مختلف شہروں کو تاروں سے جوڑنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد برطانیہ اور فرانس کے درمیان پہلی تار بچھائی گی۔ 1958 میں برطانیہ کو ہزاروں میل دور امریکہ سے بھی جوڑ دیا گيا جس کے لیے بحر ظلمات کے نیچے سے تار بچھائی گئي۔ آج کی آپٹیکل فائبر اسی ٹیلی گرف کی ترقی یافتہ شکل ہے جو پوری دنیا کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔