پزل اور پہیلیاں حل کرنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ کچھ پہیلیاں بظاہر آسان نظر آتی ہیں لیکن حل کرنے بیٹھو تو کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ ایسے کئی مسائل ریاضی دانوں نے پیش کئیے ہیں جو صدیوں سے حل طلب ہیں اور ان کے حل پیش کرنے والے کے لیے بڑے بڑے انعامات کے وعدے کئیے گئے ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک فرمے کا آخری مسئلہ ہے جس کا حل ماضی قریب میں پیش کیا گیا اور میڈیا میں پزیرائی پایا۔
فرمے سترھیوں صدی عیسوی کا ریاضی دان تھا۔ اس نے کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن وہ شوقیہ ریاضی دان تھا اور کتابوں کے حاشیوں پراپنے خیالات اور نقاط لکھتا رہتا تھا۔ ایک کتاب کے حاشیے میں اس نے لکھا کہ مساوات
X2+Y2=Z2
یعنی دو مربعوں کا حاصل جمع بھی کامل مربع ہوتا ہے۔
اسے مسئلہ فیثا غورث بھی کہتے ہیں اور بہت سے اعداد اس پر پورا اترتے ہیں جیسے
3-4-5
یا
5-12-13
وغیرہ۔ اس نے لکھا کہ یہ تو مربع مساوات ہے۔ لیکن دو مکعب کا حاصل جمع ایک مکمل مکعب ہونا ناممکن ہے۔ یعنی
X3+Y3=Z3
پر کوئی تین اعداد X, Y اور Z پورا نہیں اترتے۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاور 3 کے بجائے 4، 5، 6 یا کچھ بھی کر لی جائے توبھی اوپر کی مساوت حل نہیں ہوتی۔ کم بخت نے اس بونگی کا ثبوت دینے کی بجائے لاطینی زبان میں بہانہ لکھ ڈالا:
"Cubum autem in duos cubos, aut quadrato-quadratum in duos quadrato-quadratos, et generaliter nullam in infinitum ultra quadratum potestatem in duos eiusdem nominis fas est dividere cuius rei demonstrationem mirabilem sane detexi. Hanc marginis exiguitas non caperet"
ترجمہ: "یہ ناممکن ہے کہ دو مکعب اعداد کا مجموعہ مکعب ہو، دو مربع مربع اعداد کا مجموعہ مربع مربع ہو، یا عمومی طور پر ایک نمبر جس کی طاقت 2 سے زیادہ ہو وہ ویسی ہی طاقت والے دو نمبروں کا مجموعہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے اس کا ایک شاندار ثبوت دریافت کیا ہے لیکن اس حاشيے کی جگہہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے میں اسے یہاں پیش نہیں کر سکتا۔"
ریاضیاتی طور پر کوئی سے 4 مکمل اعداد کے ليئے
Xn+Yn≠ Zn
اس بظاہر سادہ نظر آنے والی مساوات کا حل اگلے 350 برس تک دنیا کے پھنے خاں ریاضی دان مہیا نہ کر سکے اور اس مسئلے نے ریاضی کے مشکل ترین مسئلے کی حيثیت سے شہرت حاصل کر لی۔
فرمے کے آخری مسئلے کی سادگی اور اس کے الفاظ کہ میں نے اس کا حل تلاش کر لیا ہے، نے ریاضی دانوں کو مخمصے میں پھنسائے رکھا۔ مسئلہ بظاہر اتنا آسان ہے کہ سکول کا بچہ بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ بہت سے ریاضی دانوں نے اسے حل کرنے میں کچھ حد تک پیش قدمی کی لیکن یہاں تک نہیں کہ یقین سے کہا جا سکے کہ n کی کسی بھی قدر کے لیے فرمے کا بیان درست ہے۔
پھر اس کہانی میں اینڈریو وائلز کا کردار آتا ہے۔ وائلز بچپن میں ریاضی کی پہیلیاں حل کرنے میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے پہیلیوں کی ایک کتاب میں فرمے کے مسئلے کے متعلق پڑھا۔ اس وقت یہ مسئلہ گزشتہ تین سو سال سے حل طلب تھا۔ "دیکھنے میں یہ مساوات اتنی آسان تھی جبکہ تاریخ کے عظیم ترین ریاضی دان بھی اسے حل کرنے میں ناکام رہے تھے" وائلز نے ایک انٹرویو میں بتایا۔ "میں اسے حل کروں گا۔"
اس کے بعد وائلز اس مسئلے کے متعلق سوچتا رہا۔ اسکول اور کالج کی زندگی میں بھی وہ اس مسئلے کے حل میں سرگرداں رہا۔ جیسے جیسے اس کی ریاضی میں استعداد برھتی رہی وہ نئے حاصل کئے گئے علم کواستعمال کرتا رہا لیکن کامیابی نہ ملی۔ اس کے بعد وائلز یونیورسٹی میں تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہو گیا۔ اب اسے احساس ہونے لگا کہ اس مسئلے کی تلاش میں سر کھپانا فضول ہو گا کیونکہ حل ہونے کے بعد بھی اس کا خاص فائدہ نہ ہوگا۔ چنانچہ وہ بیضوی خطوط پر تحقیق کرنے لگا۔ اس پہیلی نے اس پر اتنا اثر ضرور ڈالا کہ اس نے اپنے مستقبل کے لیے ریاضی ہی کو چنا۔
اس کا بیضوی خطوط کا مطالعہ رائیگاں نہ گیا ۔1986ء میں ایک اور ریاضی دان کن ربٹ نے فرمے کے آخری مسئلے کا ربط تب تک ایک اور حل طلب مسئلے تانی-یاما-شیمورا مفروضہ کے ساتھ دریافت کیا۔ یہ مفروضہ اتفاق سے بیضوی یا محرابی خطوط کے ساتھ بھی تعلق رکھتا تھا۔ اب اگر وائلز تانی-یامہ-شیمورا مفروضہ ثابت کر لے تو فرمے کا آخری مسئلہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا۔
یہ جاننے کے بعد وائلز کے دل میں بچپن کی اس پہیلی کو حل کرنے کی خواہش پھر بیدار ہو گئی۔ اب اس نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر باد کہا اور تنہائی میں رازداری سے تانی-یاما- شیمورا مفروضے پر کام کرنے لگا۔ اس وقت تک فرمے کے مسئلے کو حل کرنے والے شخص کے لیے بھاری رقوم کے انعامات کا اعلان ہو چکا تھا۔ "مجھے معلوم تھا کہ فرمے کے آخری مسئلے پر کام کرنے والے شخص میں لوگ بہت زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سارے تماشائیوں کی موجودگی میں آپ سوچ کو مرتکز نہیں کر پاتے"۔ صرف اس کی بیوی یہ جانتی تھی کہ وہ کس مصروفیت میں گھرا ہوا ہے۔
وائلز سات برس تک اس مسئلے پر تنہا کام کرتا رہا۔ اس کا زیادہ تر وقت سوچ بچار میں صرف ہوتا۔ درمیان میں اسے چھوٹی موٹی کامیابیاں ملتی رہیں لیکن وہ اس مسئلے کا مکمل ثبوت 1993 میں ہی پیش کر سکا جب اس نے بیضوی خطوط کو مفرد عدد تین کی بجائے پانچ کے حساب سے کھنگالنا شروع کیا۔ اس دن وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول رہا کہ دوپہر کا کھانا بھی نہ کھایا۔ شام کے وقت اس نے اپنی بیوی کو خوشخبری سنائی کے میں نے مسئلے کا ثبوت مکمل کر لیا ہے۔
وائلز نے اپنے ثبوت کو پیش کرنے کے لیے تین لیکچرز کا اہتمام کیا تاہم ان میں فرمے کے آخری مسئلے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ اس نے ساری توجہ بیضوی خطوط پر ہی رکھی۔ ان لیکچرز کے حاضرین میں بڑے بڑے ریاضی دان بھی موجود تھے۔ آخری لیکچر کے دوران کچھ سامعین سمجھ گئے کے وائلز انہیں کیا بتانا چاہ رہا ہے۔ وائلز نے تانی یاما-شیمورا مفروضہ ثابت کرنے کے بعد بلیک بورڈ پر فرمے کے آخری مسئلے کو بھی لکھ دیا، "میرا خیال ہے کہ اب مجھے یہیں ختم کر دینا چاہئے۔"
فرمے کا آخری مسئلہ حل کرتے ہی وائلز راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔ لیکن جلد ہی ریاضی دان نک کاٹز نے اس کے حل میں ایک غلطی تلاش کر لی۔ یہ وائلز کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس نے غلطی درست کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اب ہوتا یہ کہ وہ ایک جگہہ سے غلطی درست کرتا تو حل میں کہیں اور بڑی گڑ بڑ نکل آتی۔ اب وہ اپنے حل سے مایوس ہوتا جا رہا تھا۔ اس مسئلے پر اتنی محنت کے بعد اس طرح ضائع جانا بڑا صدمہ تھا۔ آخر تنگ آ کر وہ اسے پس پشت ڈالنے ہی والا تھا کہ اس نے پھر سے اپنے پرانے حل دیکھنے شروع کئیے جو اس کی پہلی پہلی کوششوں کا حصہ تھے اور بعد میں بہتر طریقے سمجھ آنے پر وہ انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ آخر اسی طرح کے اپنے مسترد کردہ حل سے ہی اسے اپنی غلطی صحیح کرنے میں مدد ملی، "یہ اتنا سادہ اور آسان تھا۔ صرف بیس منٹ پہلے میں نے امید کے بغیر اسے دیکھنا شروع کیا تھا۔" اس طرح وائلز کا فرمے کا آخری مسئلہ حل کرنے کا بچپن کا خواب آخر کار 1994 میں پورا ہو گیا۔ یہ حل 200 ضخیم صفحات پر مشتمل ہے۔
ابھی بھی یہ پہیلی مکمل طور پر حل نہیں ہوئی کیونکہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فرمے کے پاس اس مسئے کا واقعی حل تھا بھی یا اس نے صرف ڈینگ ماری تھی؟ فرمے وائلز کے طریقے سے اسے معلوم نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وائلز نے اپنے مقالے میں بہت سے ایسے قوانین اور مسائل کا استعمال کیا ہے جو فرمے کے وقت تک ایجاد یا دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ "میرے حل کی بہت سی تکنیکیں فرمے کے بہت بعد کی دریافت ہیں۔" ممکن ہے کہ جس طرح بہت سے ریاضی دان سوچتے رہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ فرمے کو بھی یہیں غلط فہمی رہی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وائلز سے سادہ حل بھی موجود ہو۔ تاہم وائلز اپنے لمبے اور مشکل حل سے مطمئن ہے۔ "میں اسے اپنی بہت بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ بچپن کے ایک خواب کو بڑے ہو کر عملی جامہ پہنا سکا"